ھول وقفی کربلا میں دفن کرنا کیسا؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں قبرستان کی ایسی زمین پر جہاںقبر ہونے کا احتمال ہے‘ کربلا بنوانا جس میں تعزیہ مروجہ کی مٹی اور پھول دفن کئے جائیں‘ جائز ہے یا نہیں؟ گزشتہ سال تک پھول و مٹی دریا میں ڈال دیا جاتا تھا‘ جسے ہندوئوں سے مشابہت تعبیر کرکے ترک کردیا گیا۔ جلد از جلد جواب مرحمت فرماکر نفاق بین المسلمین کو دُور فرمائیں۔ ممنون و مشکور فرمائیں۔ فقط۔ والسلام
سائل: محمد خدا بخش رحمانی قادری
بقلم محمد نعمت حسین حبیبی قادری
صدر المدرسین مدرسہ عربیہ غوثِ اعظم‘ کلکتہ-۱۸
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فرضی کربلا جو آج کل محرمات و خرافات کی آماجگاہ ہے‘ کسی کو خود اپنی ملک میں بنانا بھی جائز نہیں‘ چہ جائے کہ وقفی قبرستان میں بنائے‘ یہ حرام در حرام‘ بدکام بدانجام ہے۔ پھر جبکہ وہاں قبر ہونے کا گمان غالب ہو‘ تو اور زیادہ عذاب و نکال و وبالِ شدید کا موجب ہے کہ ایذائے میت ہے‘ جو اشد حرام ہے۔ حضور سرورِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو قبر پر بیٹھتے دیکھا تو فرمایا: اے شخص! قبر سے اُتر‘ صاحب ِقبر کو ایذا نہ دے‘ نہ وہ تجھے ایذا دے‘ اور حدیث میں ہے کہ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں انگاروں پر چلوں یہ مجھے قبر پر چلنے سے زیادہ پسند ہے۔ علما فرماتے ہیں کہ قبرستان میں جو نیا راستہ نکالا جائے اس میں گزرنا حرام ہے کہ قبروں پر سے گزر کا احتمال ہے‘ تو اس صورت ِخاصہ میں وہاں کچھ بنانا اشد حرام‘ ورنہ قبرستان ہونا ہی کسی تصرفِ اجنبی سے ممانعت کافی۔ ’’ردّ المحتار‘‘ میں ہے:
’’لانہم نصوا علی ان المرور فی سکۃ حادثۃ فیھاحرام‘ فہٰذا أولی‘‘
[ردالمحتار‘ ج۱‘ ص۵۵۶‘ کتاب الطہارۃ‘ باب الانجاس‘ فصل الاستنجاء‘ دارالکتب العلمیۃ‘ بیروت]
عالمگیری میں ہے: ’’لایجوز تغییر الوقف عن ہیئتہ‘‘۔
[فتاویٰ ہندیہ‘ ج۲‘ ص۴۲۳‘ الباب الرابع عشر فی المتفرقات‘ مطبع دارالفکر‘ بیروت]

فتاویٰ تاج الشریعہ جلد 4
 

Post a Comment